کراچی11جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)پاکستان میں دہشت گردوں کے ساتھ رابطوں کی حامل یا شدت پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے والی قریب پینسٹھ ممنوعہ تنظیمیں ایسی ہیں، جو ابھی تک انٹرنیٹ پر سرگرم ہیں اور سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی فعال نظر آتی ہیں۔اس بارے میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے منگل گیارہ جولائی کے روز اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ ابھی حال ہی میں پاکستان میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک روز غروب آفتاب کے وقت ایک آن لائن کمیرے کے ذریعے اپنی خود کار رائفلوں کی نمائش کرنے والے تین افراد، جن کے کمپیوٹر اسکرین پر صرف سائے ہی دیکھے جا سکتے تھے،ایک آن لائن صارف کو جہادی تنظیم لشکرِ اسلام کے فیس بک پیج پر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
یہ تنظیم پاکستان میں ان تقریباََ 65کالعدم تنظیموں میں سے ایک ہے، جن پر ان کی شدت پسندی یا فرقہ ورانہ خونریزی کی حمایت کی وجہ سے حکومت پابندی لگا چکی ہے۔ایسے بیسیوں ممنوعہ گروپ پاکستان میں نہ صرف سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹ چلاتے ہیں بلکہ اپنے لیے نئے حمایتی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ ان کالعدم تنظیموں میں سے 40 سے زائد تو باقاعدگی سے اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ اور ٹیلیگرام جیسی سوشل میڈیا ویب سائٹس استعمال کرتی ہیں۔
پاکستان میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے ادارے کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ ان تمام آن لائن اکاؤنٹس اور ویب سائٹس کو بند کرے، جنہیں یہ تنظیمیں اپنے جہادی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، یہ تنظیمیں ان آن لائن اکاؤنٹس اور اپنی ویب سائٹس کو اپنے نئے ارکان کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ مالی وسائل جمع کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔
یہ تنظیمیں ایک مذہب کے طور پر اسلام کی ایک بہت ہی سخت گیر تشریح کا پرچار کرتی ہیں۔ ان میں ایسی سنی عسکریت پسند تنظیمیں بھی ہیں، جو سنی پاکستانیوں کو اشتعال دلا کر انہیں اس بات پر اکساتی ہیں کہ وہ مقامی شیعہ مذہبی اقلیت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں۔ اسی طرح کئی دیگر تنظیمیں جہاد کی اپنی ہی تشریح کو بہت شاندار بنا کر پیش کرتے ہوئے عام لوگوں کو یہ دعوت بھی دیتی ہیں کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر یا افغانستان میں سرگرم جہادیوں کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے اس جائزے میں حقیقی مثالیں دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں کئی ایسے فیس بک اکاؤنٹس ابھی تک عام صارفین کی دسترس میں ہیں۔